گوهر حمد بکف بس دولت تقدير ما
دايهء عشق از ازل داد از کرامت شير ما
با وجود گمرهی خضرم بوادی طلب
گشت نازل آيت تطهير در تکفير ما
آن را افغان نمودن تنگی وسعت بود
شکل حيرت را نديدی هيئت تصوير ما
در گستان عدم پيوسته رعنای وجود
مرغ عيسی کی تواند خورد از انجير ما
خود بگو از شصت صاف دل کجا يابی رها
شهپر جبريل دارد پر پهلو تير ما
خنده بر مرگی بود هر گل ز زخمی بشگفد
زندگانی می چکد خون از دم شمشير ما
بزم اطفالانهء احمد سرخوش از سرود
بم نوازيها شنو از پرده های زير ما
حمد کے موتی ہمارے ہاتھوں میں مقدر کی دولت ہے
کہ ازل سے عشق نے اپنے کرم سے رضائی ماں کی طرح دودھ پلایا
گمراہی کے باوجود طلب کی وادی میں خضر ہوں
کہ میرے کفر میں آیت تطهیر نازل ہوئی ہے
اسے تو رونے کے لئے تنگی میں بھی کشادگی میسر ہے
کیاتونے ہماری تصویر کی ہئیت میں حیرت نہیں دیکھی ؟
عدم کے ریگستان سے ہمارے وجود کی رعنائی جڑی ہے
مرغ عیسی کیونکر ہماری انجیر کھا ئے ؟
تم خود ہی کہہ دو که دل کی قید سے کیسے رهائی پاؤگے؟
کہ جبرئیل اپنے شہپر میں بھی ہمارا تیر رکھتا ہے
پھول تو زخم کھا کر ہی کھلتا ہے جو موت پر ہنسی ہے
دراصل ہماری تلوار کی نوک سے زندگی ٹپکتی ہے
احمد کی یہ بچگانہ محفل مست نغموں سے ہے
یہاں اونچے سروں کو ہمارے نچلے سروں سے سنو
|