کتابها از (پشت) شیشه های الماری بسته بیرون را می نگرند
با حسرت بسیار تماشا می کنند
ماه ها سپری شد ؛ اما دیداری میسر نگردید
بعد از غروب ها ؛ اغلب با هم دیدار داشتیم
حال زمان در برابر صفحه کمپیوتر ها سپری می گردد
کتاب ها بسیار نا آرام اند
آنها حالا در خواب به رفتن، عادت کرده اند
با حسرت بسیار نظاره گر اند
ارزش های را که این ها نمادین می شدند
که تماشای آنها هرگز سیری نداشت
ارزش هایی که دیگر در خانه ، ناپیدا شده اند
پیوند های را که این ها نماد می شدند
آنها از هم گردیده اند گسسته گسسته
گر صفحه ای را ورق گردانم ، آه وی آید برون
گاه مفاهیم واژه ها می گریزد
بی ورق و بی برگ، هر واژه سرد است و خشک
برخی بی معنا شده اند از آن واژه ها
اصطلاحاتی در آن میان
به گونه تودهی خاک هر طرف افتیده اند
صنف های دانش اموزان این ها را متروک کرده اند
آن لذتی که زبان هنگام ورق زدن داشت
حالا از دندان گرفتن انگشت هم
به سرعت سپری میگردد
بسا چیزها در پرده ها ته و بالا می شوند
دیگر آن پیوند ژرف با کتابها گسسته
خاطرهء بر سینه گذاشتن و دراز کشیدن
گاهی دره آغوش گرفتن
گاهی خمیده و و گاهی به روی هم افتاده
گاهی رحلی بودیم برای آن ها
چه همرازی هایی بود و چه همدلی ها
بوسه ربودن با جبین
گر خواست خدا بودی ، بعد از این هم دانش خواهیم اندوخت
مگر خاطرهء بهره وری از آن گل های خشکیده ی لای کتابها
و پیوند هایی که با طرف دیگر؛ با خواستن کتاب ها ، افتادن کتاب ها و
برداشتن آنها، پدید می آمد
آن ها را چه خواهد شد؟
شاید حالا آن رویدادها تکرار شنی نیستند!! آه!
گلزار
از ویرایش جناب استاد
فضل
الرحمن فاضل
جهانی سپاس
کتابیں
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں ، اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بےچین رہتی ہیں
انھیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہوگئی ہے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
جو قدریں وہ سناتی تھیں
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ سناتی تھیں
وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں
کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے
کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں
بنا پتوں کے سوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ
جن پر اب کوئی معنی نہیں اگتے
بہت سی اصطلاحیں ہیں
جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں
گلاسوں نے انھیں متروک کر ڈالا
زباں پہ ذائقہ آتا تھا جو صفحے پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے
بس اک جھپکی گزرتی ہے
بہت کچھ تہہ بہ بہہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے
کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے
چھوتے تھے جبیں سے
خدا نے چاہا تو وہ سارا علم ملتا رہے گا بعد میں بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
کتابیں مانگنے گرنے اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہوگا
وہ شاید اب نہیں ہوں گے……!!
____
- گلزار
|