ھم نے توھ مندر میں ھر صبح ایک دِیا جلا دیا
پر افسوس من کے اندھیرے کو کبھی دور نہ کیا
بھگوان کے چرنوں میں چھپن بھوگ بھی سجا دیا
پرمندر کے باھربھوکھے کوکبھی پیٹ بھرکے نا دیا
کٹورہ ھاتھ میں مندر کے نام پے چندا اکٹھا کر لیا
سکول ھے سماج کی ضرورت کبھی دھیان نا دیا
راہ انسانیت میں پھول بچھانے کا کبھی کام نا کیا
گر کانٹے ھی ھٹا دیتے توھ اِس راہ میں قدم بڑا دیا
انسان نے جب سے رب کے نام کو ھتھیار بنا دیا
دھرم ،جاتی، رنگ کو نفرت پھیلانے کا سامان بنا دیا
زندہ انسانی وجود کو مُردہ ضمیر کا قبرستان بنا دیا
انسان رھ گیا، انسانیت نے کہیں اور گھربسا لیا
رب نے ایک خوبصورت سا جہاں توھ بنا دیا
انسان جیسے مخلوق سے اِس جہان کو سجا دیا
چند روز کے سفر میں چلو ھم ایک ھو جائیں
دھرم جاتی کو دور رکھ کر انسان بن کے دکھائیں
بھایچارہ نبا کر ایک دوسرے سنگ جیون بتائیں
رب کی انسانی خلقت سے دُنیا کو گلستان بنای
|